اَلحَمۡدُلِلّٰہِ الَّذِیۡ زَیِّنَ النَّبِیِّیۡنَ بِحَبِیۡبِہٖ الۡمُصۡطَفیٰ،وَمَنۡ نَعَّلَ الۡمُومِنِیۡنَ بِنَبِّیِہٖ الۡمُجۡتَبیٰ،اَلصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلیٰ مُحَمَّدٍ خَیۡرِالۡوَرٰی،وَعَلٰی اٰلِہٖ وَاَصۡحَابِہِ الۡمُتَعَدَّدِیۡنَ بِتَّقۡوٰی،اَمَّابَعۡدُ،بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ

یہ بات امّتِ مُسلِمَہ کے لیے بنیادی حیثیت کی حامل ہے کہ رسولُ اللہ ﷺکی ذاتِ اقدس پوری انسانیت کے لیٔے تمام شعبہ ہائے زندگی میں آئیڈیل اور معیار کی کسوٹی ہے ۔ جیساکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے :

لَقَدۡ کَانَ لَکُمْ فِیۡ رَسُوۡلِ اللہِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ (سورۃ الاحزاب :21)

لہٰذا انسانی زندگی سے تعلق رکھنے والے تمام امور خواہ دنیا کی قبیل سے یا آخر ت کی قبیل سے ہوں ان تمام کی صحت اور عدم صحت کے پرکھنے کی کسوٹی اسوۂ رسول ہے ۔ کیونکہ آپ کی حیاتِ مبارکہ انسانی زندگی کے ہر میدان میں مفید مواد فراہم کرتی ہے ۔ اس کے بر خلاف دنیا کے دیگر قائدین و پیشواؤں پر نظر ڈالی جائے تو ان کی زندگی مخصوص عمل کے لیے مشعل ِ راہ بن سکتی ہے ۔ مثلاً نپولین ، سکندر اعظم اور ہٹلر کو لیں تو انکی زندگی صرف ایک سپہ سالار ِ جنگ اور فاتح کے لئے رہنمائی کا کردار ادا کر سکتی ہے۔گوتم بدھ کی زندگی ریاضت و عبادت میں خصوصی دلچسپی رکھنے والوں ہی کے لئے سبق آموز ہو سکتی ہے۔ اسی طرح سے ہُومر صرف ایک شاعر تھا۔دوسرے شعبوں میں انکی کارکردگی کالعدم تھی۔اسی وجہ سےان کے مقام و مرتبہ کے معترف صرف مخصوص طبقے ہی ہو سکتے ہیں۔لیکن رسول اللہ ﷺ کی عظمت و رفعت تمام بنی نوع انسان میں مسلم تھی۔حتٰی کہ آپ ﷺ کے دشمن بھی آپ کی عظمت و کردار کا انکار نہیں کرسکتے۔
یہی وجہ ہےکہ آپ ﷺ کے ثناء خواں پوری دنیا میں ہی نہیں بلکہ عرش پر موجو د جملہ قدسیانِ َملک(Angles) بھی ہیں۔یہاں تک کہ اللہ نے شب اسرٰی میں منصبِ امامت ِ انبیاء پر فائز کرکے تمام انبیاء پر بھی آپ ﷺ کی فضیلت اور علوِ شان کو بالکل واضح فرمایا۔رب ِ کائنات نے فرمایا۔
وَرَفَعنَا لَکَ ذِکرَکَ۔(سورہ الانشراح)
اور ہم نے آپ کے لئے آپ کے ذکر کو بلند فرمایا۔
در حقیقت اگر غور کیا جائے تو عظمتِ مصطفٰی ﷺ کاکما حقہٗ ،علم صرف خدا ہی کو ہے۔اور اللہ نے رسول اللہ ﷺ کے ذکر ِ عظیم کو شہرتِ جاوداں بخشنے کے لئے ایسا دائمی اہتمام فرمایا ہے کہ رؤئے زمین کے ہر ہر گو شے میں رات و دن کے ہر ہر لمحہ میں آپ کے اسم ِ مبارک کا ذکر ہوتا رہتاہے۔اور اللہ کی معبودیت کے ساتھ آپ کے منصبِ رسالت کی شہادت دی جاتی ہے۔
جن لوگوں نے رسول اللہ ﷺ کے ذکر ِ خیر کو مٹانے کی کو شش کی ،اللہ نےاِنَّ شَا نِئَک ھوالاَبتَرُ۔(سورہ الکوثر) آپ کا دشمن بے نام و نشان ہے۔فرماکر انکی نسل کا روئے زمین سے صفایا کردیا۔اسی کا نتیجہ ہے کہ آج ابو جہل،ابو لہب اور دیگر دشمنانِ محمد ﷺ کو دنیا ملعون کہہ کر پکارتی ہے۔اور کسی نے آج تک اپنی اولاد کا نام ان کے نام پر نہیں رکھا۔چنانچہ رسول اللہ ﷺ کی ذاتِ اقدس دنیا کے ہر رنگ ،ہر طبقہ اور ہر علاقہ کے انسانوں کے لئے دَاعِی اِلٰی اللّٰہ ہے۔آپ کی حیاتِ طیبہ کا ایک ایک عمل سب کے لئے یکساں نمونہ پیش کرتا ہے۔آپ کی اخلاقِ حسنہ اور اوصافِ حمیدہ کا یہ حال تھا کہ روئے زمین کے تمام اعاظم واکابر آج بھی دم بھرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔اللہ تعالٰی کا فرمان ہےکہ۔
اِنّکَ لَعَلٰی خُلُق عَظِیم۔(سورہ القلم)
بے شک آپ خُلق ِعظیم پر فائز ہیں۔
اس جامع ترین آیت کے بعد رسول اللہ ﷺ کی عظمت و کردار پر کیا شبہ باقی رہ جاتا ہے؟جسکی شفقت و رحمت صرف مسلمانوں کے لئے ہی نہیں ،بلکہ تمام بنی نوع انسان کے لئے عام تھی۔ آپﷺ کی خیر خواہی ،غمگساری اور رحمدلی سے دوست و دشمن ہی نہیں بلکہ عقل خِرَد سے عاری جانور بھی برابر فیضاب ہوتے ر ہتے تھے۔ارشاد باری تعالٰی ہوا۔
ومَا اَرسَلنٰکَ اِلَّا رَحمَۃً لِلعٰلَمِین۔(سورہ الانبیاء)
اور ہم نے آپ کو تمام جہانوں کے لئے سراپا رحمت بناکر بھیجا۔
یقیناً آپ کی نرم طبع کا نتیجہ تھا کہ آپ نے 23 سال کی قلیل مُدّت میں اَخلاق و کردار سے عاری گم کَردہ ،راہِ مُنتشر قوم کا شیرازہ یکجا کرکے ان کے باطل افکار و نظریات کو حقیقی رُشد و ہدایت کی راہ پر گامزن کردیا۔اور ان میں ایک دیرپا دُور رَس انقلابِ عظیم کی لہر پُھونک دی۔انسانوں پر آپ کی شفقت و راحت ایک ایسی عظیم صفت ہے۔ جسکی نظیر پوری تاریخِ انسانی نہیں پیش کرسکتی۔۔
الٰلھم صلِّ علٰی محمد عبدک و رسولک و صلِ علٰی المؤمنین والمؤمنات والمسلمین والمسلمات۔