کیوں چاند میں کھوئےہوالجھے ہوستاروں میں
آقاکومیرے ڈھونڈو قرآن کے پاروں میں
آقاکومیرے ڈھونڈو قرآن کے پاروں میں
الحمداللّٰہ رب العالمین والصلٰوۃوالسلام علٰی سیدنا محمدوعلٰی اٰلہٖ و صحبہٖ وسلم تسلیماً کثیراً الٰی یوم الدین۔امابعد،
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم،اللہ تعالٰی کے آخری نبی اور محبوب ہیں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کامقام و مرتبہ اللہ تعالٰی کی تمام مخلوق میں بشمول حضراتِ انبیائے کرام علیہم الصلٰوۃ والسلام کےسب پر بلند ہے۔
بعدازخدابزرگ توئی قصہ مختصر
اور آپ کی شان و عظمت ورفعت اور بزرگی کیونکر بلند نہ ہوں،کہ رب العالمین کا فرمان ہے کہ
(ورفعنا لک ذکرک)
اور ہم نے آپ کے لئیے آپ کے ذکر کوبلند کردیا۔
جسکی شان و عظمتوں کا بلند کر نیوالا رب تعالٰی ہو تواسکی بلندی کا کون احاطہ و اندازہ کر سکتاہے۔اگرقرآن کریم کوبنظرِایمان پڑھا اور دیکھا جائے تو سارا کا سارا قرآن نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان و عظمت کی گواہی د یتا نظرآتاہے اگر ہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ پرغورکریں تو ہم دیکھیں گے کہ اللہ تعالٰی نے کفار و مشرکین کی ہرزہ سرائی اور شانِ رسالت میں ہجو اور گستاخی کرنیوالوں کا جواب د ینے کے لئے حسّان بن ثابت،حضرت علی اور عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہھم اجمعین جیسے عظیم صحابہ کرام کی جماعت عطا فرمائی،جو نعت کی صورت میں حضور کی شان و عظمت اور بزرگی بیان فرمایا کرتے تھے۔ اسی طرح اللہ تبارک و تعالٰی اپنے پیارے حبیب کے تحفظ ناموس رسالت کے لئے بعد کے زما نوں میں قیامت تک کے لئے قرآن کریم کو نعت خواں بنا دیا،کہ لوگ قرآن پڑھتے رہینگے اور میرے محبوب کی نعت خوانی ہوتی ر ہے گی۔ قرآن کریم کے احکامات،انبیائےکرام کے واقعات،حمدِباری تعالٰی غرض قرآن کریم کا ہر موضوع اور ہر ہرآیت اپنے لانے والے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کی شان و عظمت کو اپنے اندر سموئےہوئے ھے۔ مثال کے طور پر سورۃ اخلاص یعنی (قل ھواللہ احد) کو لیجیئے اس میں خدا ئے قدوس کی صفات کا ذکر ہے اور سورۃ لہب کو دیکھئے کہ ابو لھب کافر اور اسکی بیوی کا تذکرہ ہے مگر غور کریں تو یہ دونوں سورتیں محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کی شان و عظمت سے بھری ہوئی ہیں۔سورۃ اخلاص میں ارشاد ہوا کہ اے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم تم کہدو کہ اللہ ایک ہے وہ بے نیاز ہے نہ وہ کسی کی اولاد ہے اور نہ اسکی کوئی اولاد ہے وغیرہ مگر ایک کلمئہ قُلۡ نے(محبوب تم کہدو)اس ساری سورۃ میں نعت کو شامل کردیا کیونکہ منشا ئے ا لٰہی یہ ہے کہ اے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کلام تو ھمارا ہو ۔اور زبان تمھاری ہو۔
قل کہہ کے اپنی بات بھی تیرے منہ سے سُنی
کتنی ہے تیری گفتگو اللہ کو پسند
یعنی اےمحبوب تم ھماری صفات (اللہ احد) دنیا کو بتاؤ اور ہم تمہاری صفات ارشاد فرمائیں کہ محمّد رسول اللّٰہ والذین معہ اشدّاءُ علی الکفار رحماء بینھم (الفتح)یعنی تم لاالٰہ الا اللہ کہلواؤ اور ہم محمد رسول اللّٰہ کہلوائیں گے۔ٍ
اور حبیب سے محبت ایسی کہ انکے افعال اور اطاعت کو اپنی ذات سے نسبت دی،،فرمایا۔
(وما رمیت اذرمیت ولٰکن اللّٰہ رمٰی)انفال 18
اور اے محبوب وہ خاک جو تم نے پھینکی،تم نے نہ پھینکی،ہم نے پھینکی۔
(من یطع الرسول فقد اطاع اللّٰہ)سورہ نساء 80
جس نے رسول کا حکم ماناتو بے شک اس نے اللہ کا حکم مانا۔
(وما کان اللّٰہ لیعذبھم وانت فیھم)سورہ انفال 33
اور اللہ کا کام نہیں کہ وہ عذاب کرے جب تک کہ اے محبوب تم ان میں ہو۔
اور کہیں محبوب کی جان کی قسم بیان فرمائی۔
(لعمرک انھم لفی سکرتھم یعمھون)الحجر 72
اے محبوب تمہاری جان کی قسم بے شک یہ لوگ اپنے نشہ میں بہک رہے ہیں،
اور جب اپنی ذات کی قسم بیان فرمائی تو اپنی محبوب کی نسبت سے
(فلا و ربک لا یؤمنون حتٰی یحکموک۔۔۔)نساء،65
اے محبوب تمہارے رب کی قسم وہ مسلمان نہیں ہونگے جب تک آپ کو حاکم تسلیم نہ کرلیں۔
غرض کہ سارا قرآن نبی کی شان و عظمت بیان کرتاہے۔اب آپ احکامات کو ہی دیکھ لیں نماز،روزہ،حج،زکٰوۃ اور دیگر تمام عبادات و معاملات کا اللہ نے حکم تو قرآن میں فرمایاہے مگر طریقہ کار کی و ضاحت نہیں فرمائی کیوں؟اسلیئے کہ محبو ب کی شان بتانا مقصود ہے کہ اے لوگو۔عبادات میری ہونگی مگر ادائیں میرے محبوب کی ہونگی۔اور نماز میں تلاوت بھی بزبانِ عربی لازم ہے۔کیونکہ محبوب کی زبان ہے۔ بصورتِ دیگر عبادات قبول نہیں۔اللہ تعالٰی ہم تمام کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان و عظمت کو سمجھنے اور انکی سنتوں پر عمل کرنے کی تو فیق عطا فرمائے۔اور قرآن کو صحیح طور پر سمجھنا ہے تو عشقِ مصطفیٰ کے ساتھ تلاوت کرنا ضروری ہے ورنہ
(یضلّ بہ کثیراً و یھدی بہ کثیراً)
اوراللہ اس سے بہت سے لوگوں کو گمراہ کرتا ہے۔اور اس سے بہت سےلوگوں کو ھدایت دیتا ہے۔بقرہ 26
بغیر عشقِ مصطفیٰ کے قرآن فہمی سے انسان کے ایمان و اعتقاد گمراہ ہوجاتے ہیں۔
اے رضا خود صاحبِ قرآن ہے ،مدّاحِ رسول
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم،اللہ تعالٰی کے آخری نبی اور محبوب ہیں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کامقام و مرتبہ اللہ تعالٰی کی تمام مخلوق میں بشمول حضراتِ انبیائے کرام علیہم الصلٰوۃ والسلام کےسب پر بلند ہے۔
بعدازخدابزرگ توئی قصہ مختصر
اور آپ کی شان و عظمت ورفعت اور بزرگی کیونکر بلند نہ ہوں،کہ رب العالمین کا فرمان ہے کہ
(ورفعنا لک ذکرک)
اور ہم نے آپ کے لئیے آپ کے ذکر کوبلند کردیا۔
جسکی شان و عظمتوں کا بلند کر نیوالا رب تعالٰی ہو تواسکی بلندی کا کون احاطہ و اندازہ کر سکتاہے۔اگرقرآن کریم کوبنظرِایمان پڑھا اور دیکھا جائے تو سارا کا سارا قرآن نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان و عظمت کی گواہی د یتا نظرآتاہے اگر ہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ پرغورکریں تو ہم دیکھیں گے کہ اللہ تعالٰی نے کفار و مشرکین کی ہرزہ سرائی اور شانِ رسالت میں ہجو اور گستاخی کرنیوالوں کا جواب د ینے کے لئے حسّان بن ثابت،حضرت علی اور عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہھم اجمعین جیسے عظیم صحابہ کرام کی جماعت عطا فرمائی،جو نعت کی صورت میں حضور کی شان و عظمت اور بزرگی بیان فرمایا کرتے تھے۔ اسی طرح اللہ تبارک و تعالٰی اپنے پیارے حبیب کے تحفظ ناموس رسالت کے لئے بعد کے زما نوں میں قیامت تک کے لئے قرآن کریم کو نعت خواں بنا دیا،کہ لوگ قرآن پڑھتے رہینگے اور میرے محبوب کی نعت خوانی ہوتی ر ہے گی۔ قرآن کریم کے احکامات،انبیائےکرام کے واقعات،حمدِباری تعالٰی غرض قرآن کریم کا ہر موضوع اور ہر ہرآیت اپنے لانے والے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کی شان و عظمت کو اپنے اندر سموئےہوئے ھے۔ مثال کے طور پر سورۃ اخلاص یعنی (قل ھواللہ احد) کو لیجیئے اس میں خدا ئے قدوس کی صفات کا ذکر ہے اور سورۃ لہب کو دیکھئے کہ ابو لھب کافر اور اسکی بیوی کا تذکرہ ہے مگر غور کریں تو یہ دونوں سورتیں محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کی شان و عظمت سے بھری ہوئی ہیں۔سورۃ اخلاص میں ارشاد ہوا کہ اے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم تم کہدو کہ اللہ ایک ہے وہ بے نیاز ہے نہ وہ کسی کی اولاد ہے اور نہ اسکی کوئی اولاد ہے وغیرہ مگر ایک کلمئہ قُلۡ نے(محبوب تم کہدو)اس ساری سورۃ میں نعت کو شامل کردیا کیونکہ منشا ئے ا لٰہی یہ ہے کہ اے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کلام تو ھمارا ہو ۔اور زبان تمھاری ہو۔
قل کہہ کے اپنی بات بھی تیرے منہ سے سُنی
کتنی ہے تیری گفتگو اللہ کو پسند
یعنی اےمحبوب تم ھماری صفات (اللہ احد) دنیا کو بتاؤ اور ہم تمہاری صفات ارشاد فرمائیں کہ محمّد رسول اللّٰہ والذین معہ اشدّاءُ علی الکفار رحماء بینھم (الفتح)یعنی تم لاالٰہ الا اللہ کہلواؤ اور ہم محمد رسول اللّٰہ کہلوائیں گے۔ٍ
اور حبیب سے محبت ایسی کہ انکے افعال اور اطاعت کو اپنی ذات سے نسبت دی،،فرمایا۔
(وما رمیت اذرمیت ولٰکن اللّٰہ رمٰی)انفال 18
اور اے محبوب وہ خاک جو تم نے پھینکی،تم نے نہ پھینکی،ہم نے پھینکی۔
(من یطع الرسول فقد اطاع اللّٰہ)سورہ نساء 80
جس نے رسول کا حکم ماناتو بے شک اس نے اللہ کا حکم مانا۔
(وما کان اللّٰہ لیعذبھم وانت فیھم)سورہ انفال 33
اور اللہ کا کام نہیں کہ وہ عذاب کرے جب تک کہ اے محبوب تم ان میں ہو۔
اور کہیں محبوب کی جان کی قسم بیان فرمائی۔
(لعمرک انھم لفی سکرتھم یعمھون)الحجر 72
اے محبوب تمہاری جان کی قسم بے شک یہ لوگ اپنے نشہ میں بہک رہے ہیں،
اور جب اپنی ذات کی قسم بیان فرمائی تو اپنی محبوب کی نسبت سے
(فلا و ربک لا یؤمنون حتٰی یحکموک۔۔۔)نساء،65
اے محبوب تمہارے رب کی قسم وہ مسلمان نہیں ہونگے جب تک آپ کو حاکم تسلیم نہ کرلیں۔
غرض کہ سارا قرآن نبی کی شان و عظمت بیان کرتاہے۔اب آپ احکامات کو ہی دیکھ لیں نماز،روزہ،حج،زکٰوۃ اور دیگر تمام عبادات و معاملات کا اللہ نے حکم تو قرآن میں فرمایاہے مگر طریقہ کار کی و ضاحت نہیں فرمائی کیوں؟اسلیئے کہ محبو ب کی شان بتانا مقصود ہے کہ اے لوگو۔عبادات میری ہونگی مگر ادائیں میرے محبوب کی ہونگی۔اور نماز میں تلاوت بھی بزبانِ عربی لازم ہے۔کیونکہ محبوب کی زبان ہے۔ بصورتِ دیگر عبادات قبول نہیں۔اللہ تعالٰی ہم تمام کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان و عظمت کو سمجھنے اور انکی سنتوں پر عمل کرنے کی تو فیق عطا فرمائے۔اور قرآن کو صحیح طور پر سمجھنا ہے تو عشقِ مصطفیٰ کے ساتھ تلاوت کرنا ضروری ہے ورنہ
(یضلّ بہ کثیراً و یھدی بہ کثیراً)
اوراللہ اس سے بہت سے لوگوں کو گمراہ کرتا ہے۔اور اس سے بہت سےلوگوں کو ھدایت دیتا ہے۔بقرہ 26
بغیر عشقِ مصطفیٰ کے قرآن فہمی سے انسان کے ایمان و اعتقاد گمراہ ہوجاتے ہیں۔
اے رضا خود صاحبِ قرآن ہے ،مدّاحِ رسول
تجھ سے کب ممکن ہے پھرمدحت رسول اللہ کی
از قلم: مولانا شمشاد احمد اشرفی