معراج النبی ﷺ
معجزہ معراج النبی ﷺ تاریخ ِ انسانی میں وہ عظیم اور محیر العقول واقعہ ہے جس نے انسانی ذھن کے دریچو ں کو وہ جلا بخشی کہ اس کے لئے تسخیر کائنات کے بند دروازے کھل گئے اور انسان نے جستجو کا ایسا سفر شروع کیا کہ کائنات میں مو جود جمادات،نباتات اور حیوانات پر طرح طرح کی تحقیقات شروع کردیں اور نئے سے نئے انکشافات کرنے لگا حقیقتا ًسائنسی عروج ، ارتقاء، تحقیقات ،ایجادات اور نئے سے نئے انکشافات سب کے سب معراج لنبی ﷺ کا موں بو لتا ثبوت اور گواہ ہیں ۔
اور معراج النبی ﷺ ہی انسان کو احساس دلاتا ہے کہ بے شک خلاق اعظم ہی قادر مطلق اور زبردست حکمت والا ہے اس کے سامنے تمام مادی قوتیں ہیچ ہیں انسانی مادی عقل اس کی وسعتوں تک کبھی بھی پہنچ نہیں سکتی ۔
رسو ل اللہ ﷺ کا حالت بیداری میں اپنے جسم اطہر کے ساتھ آسمانوں تک جانا پھر جہاں تک اللہ تعالیٰ نے چاہا وہاں تک جانا یہ معراج ہے اور یہ حق اور ثواب ہے اور صحیح ومشہور اور معتمد احادیث سے ثابت ہے ۔ اس ضمن میں یہ بھی بتاتا چلوں کہ درحقیقت معراج النبی کے دو حصے ہیں ایک اسراء اور دوسرامعراج لہذا اسرا ءکا منکر کافر ہے کیونکہ اس کا ذکر صراحت کے ساتھ سورہ بنی اسرائیل میں ہے جبکہ معراج کا منکر مبتدع اور فاسق ہے ۔
معراج النبی ﷺ کی تاریخ:
معراج کی تاریخ کے متعلق کئی اقوال ملتے ہیں اس کے متعلق میرے استاذ شیخ الحدیث سعید ملت علامہ غلام رسول سعیدی رحمۃ اللہ علیہ نے تبیان القرآن میں ملاعلی قاری رحمۃ اللہ علیہ کے حوالے سے لکھا ہے کہ بکثرت علماء و محدثین نے کہا ہے کہ معراج کا واقعہ ہجرت سے ایک سال پہلے ہوا ہے علامہ نووی رحمۃ اللہ علیہ نے ذکر کیا ہے کہ متقدمین عظام جمہور محدثین اور فقہاء کا اس پر اتفاق ہے کہ واقعہ معراج بعثت کے سولہ ماہ بعد ہوا علامہ سبکی نے کہا کہ اس پر اجماع ہے کہ واقعہ معراج مکہ میں ہوا اورمختار وہ ہے جو ہمارے شیخ ابو محمد نے کہا کہ معراج ہجرت سے ایک سال پہلے ہوئی ہے ،اور سید جمال الدین محدث نے روضۃ الاحباب میں لکھا ہے کہ معراج ماہ رجب کی ستائیس تاریخ کو ہوئی جیسے کہ حرمین کریمیں میں اسی پر عمل ہوتا ہے ایک قول یہ ہےکہ معراج ربیع الآخر میں ہوئی ایک قول یہ بھی ہے کہ رمضان شریف میں ہوئی ایک قول یہ ہے کہ شوال میں ہوئی اس کے علاوہ بھی متعدد اقول ہیں ۔
(تبیان القرآن ،ج:6ص:629)
تاریخ معراج کے متعلق ا قوال میں تطبیق:
بعض علماء نے ان اقوال کے مابین تطبیق دی ہے کہ حضور ﷺ کو چونتیس بار اسراء ہوئی ان میں سے ایک بار جسمانی ہوئی اسی طرح مدارج النبوہ میں لکھا ہے ۔
معراج کی ابتداء:
معراج کی ابتداء میں بھی اختلاف ہے ایک روایت میں ہے جو کہ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور پر نور ﷺ حطیم کعبہ میں تھے ایک روایت کے مطابق جو کہ ام ہانی سے ہی ہے کہ رسول اللہ ﷺ ان کے گھر سوئے ہوے تھے ۔ان روایات میں اس طرح تطبیق دی جا سکتی ہے کہ حضور ﷺ پہلے ام ہانی کے گھر سوئے پھر وہاں سے اٹھ کر حطیم کعبہ چلے گئے اور وہاں سے سفر معراج شروع ہو ا اسی وجہ سے دونوں جگہوں کی طرف معراج کی نست کی گئی ہے ۔
کتبِ احادیث میں واقعہ معراج:
واقعہ معراج تقریبا تیس صحابہ سے مروی ہے لیکن کسی بھی روایت میں مکمل واقعہ کا بیان نہیں ملتا علماء کرام نےا س کی وجہ یہ تحریر فرمائی ہے کہ آپﷺ نے واقعہ معراج کو کئی صحابہ علیھم الرضوان کے سامنے بیان فرمایا اور ہر ایک کو اس کی استعداد کے مطابق بیان فرمایا اسی وجہ سے روایات میں مربوط واقعہ بیان نہیں ہے ۔ لیکن شیخ الحدیث سعید ملت علامہ غلام رسول سعیدی رحمۃ اللہ علیہ نے تفسیر تبیان القرآن اور شرح صحیح مسلم میں تمام احادیث کو ذکر فر ما کر مربوط انداز میں احادیث سے واقعہ معراج النبی ﷺ کو تحریر کیا ہے صاحب ذوق ان کتب کی طرف مراجعت کر سکتے ہیں ۔
میں یہاں قارئین کے لئے بغیر کسی طوالت اور بسط کے مختصر انداز میں واقعہ معراج پیش کر دیتا ہوں تاکہ تحریر میں تسلسل جاری رہ سکے ۔
اجمالاًواقعہ معراج کا ذکر:
حضور ﷺ ایک رات خانہ کعبہ کے حطیم میں آرام فر مارہے تھے کہ جبریل امین علیہ السلام حاضر خدمت ہوئے اور خواب سے بیدار کیا ۔اور ارادہ خداوندی سے آگاہی بخشی حضور ﷺ اٹھے چاہ زم زم کے قریب لائے گئے ۔سینہ مبارک کو چا ک کیا گیا قلب اطہر میں ایمان و حکمت سے بھرا ہو ا طشت انڈیل دیا گیا پھر سینہ مبارک درست کردیا گیا، حرم سے باہر تشریف لائے تو سواری کے لئے ایک جانور پیش کیا گیا جو براق کے نام سے موسوم ہے اس کی تیز رفتاری کا یہ عالم تھا کہ جہاں نگاہ پڑتی تھی وہاں قدم رکھتا تھا ۔حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام اس پر سوار ہوکر بیت المقدس آئے ۔اور جس حلقہ سے انبیاء کی سواریاں باندھی جاتی تھی براق کو باندھ دیا گیا حضور مسجد ِاقصیٰ میں تشریف لے گئے جہاں جملہ انبیاء سابقین حضور کے لئے چشم براہ تھے ۔حضور ﷺ کی اقتداءمیں سب نے نماز ادا کی ۔اس طرح ارواح انبیاء سے روز ازل جو یہ عہد لیا گیا تھا ۔
لَتُؤْمِنُنَّ بِہٖ وَلَتَنۡصُرُنَّہٗؕ
( سورہ آل ِعمران:81)
کہ تم میرے محبوب پر ضرور ایمان لانا اور اس کی مدد کرنا ۔کی تکمیل ہوئی از اں بعد مرکب ہمایو ں بلندیوں کی طرف پر کشاہوا ۔مختلف طبقات آسمانی پر مختلف انبیاء سے ملاقاتیں ہوئیں ۔
پہلے آسمان پر ابو البشر آدم علیہ السلام اور ساتویں آسمان پر اپنے جدِ کریم ابو الانبیاء حضرت خلیل علیہ الصلوٰۃ والسلام سے ملاقات ہوئی ۔حضرت خلیل نے مرحبا بالنبی الصالح والابن الصالح یعنی اے نبی صالح خوش آمدید اور اے فرزندد لبند مرحبا! کے محبت بھر ےکلمات سے استقبال کیا ۔
حضرت ابراھیم علیہ السلام بیت المعمور سے پشت لگائے بیٹھے تھے حضور ﷺ آگے بڑھے اور سدرۃ المنتہیٰ تک پہنچے جو انوار ربانی کی تجلی گاہ تھی ۔اس کی کیفیت الفاظ کے پیمانوں میں سما نہیں سکتی ۔عقاب ہمت یہاں بھی آشیاں بند نہیں ہوا ۔اور آگے بڑھے کہاں تک گئےما و شما اسے کیا سمجھیں زبان قدرت نے مقام قرب کا ذکر اس طرح کیا ہے :
ثُمَّ دَنَا فَتَدَلّٰی
فَکَانَ قَابَ قَوْسَیۡنِ اَوْ اَدْنٰی ۚ
پھر وہ جلوہ نزدیک ہوا۔پھر خوب اُتر آیا تو اس جلوے اور اس محبوب میں دو ہاتھ کا فاصلہ رہا بلکہ اس سے بھی کم
(سورۃ النجم :9- 8)
وہاں کیا ہوا یہ بھی میری اور آپ کی عقل کی رسائی سے بالاتر ہے قرآن کریم نے بتایا ہے
فَاَوْحٰۤی اِلٰی عَبْدِہٖ مَاۤ اَوْحٰی
اب وحی فرمائی اپنے بندے کو جو وحی فرمائی
(سورۃ النجم :10)
اسی مقام قرب اور گوشہ خلوت میں دیگر انعامات نفیسہ کے علاوہ پچاس نمازیں ادا کر نے کا حکم ملا ۔حضرت موسیٰ علیہ السلام کی عرضداشت پر حضور ﷺ نے کئی بار بار گاہ ِرب العزت میں تخفیف کے لئے التجا کی چنانچہ نماز کی تعداد پانچ کردی گئی اور ثواب پچاس کا ہی رہا ۔فراز عرش سے محبوب ر ب العالمین مراجعت فرمائے خاکدان ارضی ہوئے ۔
ابھی یہاں رات کا سماں تھا۔ہر سو رات کی تاریکی پھیلی ہوئی تھی سپیدۃ سحر کا کہیں نام ونشان نہ تھا ۔
واقعہ معراج کو انتہائی اختصار کے ساتھ آپ کے سامنے پیش کردیا گیا ۔یہ مسافت بیشک بڑی طویل ہے اس سفر میں پیش آنے والا ہر واقعہ بلا شبہ عجیب و غریب ہے ۔اس لئے وہ دل جو نور ایمان سے خالی تھے ۔انہوں نے اسے اسلام اور داعی اسلام کے خلاف سب سے بڑااعتراض قرار دیا کئی ضعیف الایمان لوگوں کے پاؤں ڈکمگاگئے ۔لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ جن کے دل میں یقین کا چراغ ضوفشاں تھا انہیں قطعًا کوئی پریشانی اورتذبذب نہیں ہوا اور نہ دشمنان اسلام کی ہر زہ سرائی اور غوغہ آرائی سے وہ متا ثر ہوئے ۔
(ضیاء النبی ،ج:2ص:85-83)
اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
سُبْحٰنَ الَّذِیۡۤ اَسْرٰی بِعَبْدِہٖ لَیۡلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اِلَی الْمَسْجِدِ الۡاَقْصَا الَّذِیۡ بٰرَکْنَا حَوْلَہٗ لِنُرِیَہٗ مِنْ اٰیٰتِنَا ؕ اِنَّہٗ ہُوَ السَّمِیۡعُ البَصِیۡرُ
“پاکی ہے اسے جو اپنے بندے کو راتوں رات لے گیا مسجد حرام سے مسجد اقصا تک جس کے گرداگرد ہم نے برکت رکھی کہ ہم اسے اپنی عظیم نشانیاں دکھائیں بیشک وہ سنتا دیکھتا ہے”۔
:لفظ سبحان کی تفسیر اور اسرار
تسبیح کا معنی ہے ان اوصاف سے اللہ تعالیٰ کے پاک ہونے کو بیان کرنا جو اس کی شان کے لائق نہیں ہیں ،اور اس کا اصل معنی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی
عبادت کو بہت تیزی اور سرعت کے ساتھ انجام دینا اور تسبیح کا لفظ تمام عبادات کے لیے عام ہے خواہ اس عبادت کا تعلق قول سے ہوفعل سے ہو یا نیت سے ہو
(المفردات ج:1ص:292)
سبحان کا لفظ ہر عیب اور ہر نقص سے اللہ تعالیٰ کی تنزیہ اور تقدیس کے لیے ہے ،اور اللہ تعالٰی کے غیر کو اس صفت سبحان سے موصوف کرنا ممتنع ہے ۔
رات کے اتنے قلیل لمحہ میں اتنی عظیم الشان سیر کراکر واپس لے آنا عادۃً محال تھا ۔اللہ تعالٰی نے یہ ظاہر فرمایا کہ مخلوق کے لیے تو یہ محال ہے اگر خالق کے لیے بھی یہ محال ہو تو یہ خالق کے لیے نقص اور عیب ہوگا اور خالق سبحان ہے یعنی ہر نقص اور عیب سے پاک ہے ،اس لیے بعض علماء نے یہ کہا کہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت کے شروع میں لفظ سبحان ذکر کرکے واقعہ معراج کو ثابت کردیا !
اللہ تعالیٰ نے فرمایا سبحان ہے وہ جس نے اپنے عبد خاص کو معراج کرائی تو معلوم ہوا کہ نبی ﷺ کو معراج کرانا اللہ تعالیٰ کے سبحان ہونے کی معرفت کا ذریعہ اور دلیل بنا ۔اللہ تعالیٰ تو ہمیشہ سے سبحان ہے اور ہمیشہ سبحان رہے گا لیکن اللہ تعالیٰ کے سبحان ہونے کا ظہور اتم اور معرفت کا ملہ اس وقت ہوئی جب اللہ تعالیٰ رات کے ایک لمحہ میں نبی ﷺ کو فرش سےعرش تک لے گیا اور اسی لمحہ میں پھر آپ کو عرش سے فرش پر واپس لے آیا اس لیے یہ کہنا درست نہیں کہ اگر اس آیت کے شروع میں لفظ سبحان نہ ہوتا تو واقعہ معراج ثابت نہ ہوتا بلکہ درست یہ ہے کہ اگر واقعہ معراج نہ ہوتا تو اللہ تعالیٰ کے سبحان ہونے کا کامل ظہور نہ ہوتا !
اس سفر کے ابتداء میں بھی سبحان اللہ کا ذکر ہے اور آخر میں حضوﷺ کا نماز کا تحفہ لانا یہ بھی اللہ کا ذکر ہے یعنی ابتداء بھی ذکر اللہ سے اور انتہاء بھی ذکر اللہ سے دوسری طرف ان مادی لوگوں نے ترقی کی اور ان کی معراج یہ ہے کہ چاند پر گئے وہاں مٹی کو پایا بطور سوغات مٹی کے ڈھیلے لے آئے یعنی مٹی سے چلے مٹی تک پہنچے اور جو لے کر آئے وہ بھی مٹی ہے یہ ہے ان مادی لوگوں کی معراج، معلوم ہو ا مادی معراج میں انسان مٹی سے ہی آگے نہیں نکل سکتا لیکن روحانی معراج میں مٹی کا انسان خداتک پہنچ جاتا ہے ۔
لفظ اسراء کی تفسیر اور اسرار:
اسراء کے معنی ہیں کسی شخص کو بیداری میں رات کے وقت لے جانا ، اگر کسی شخص کو خواب میں کوئی کسی جگہ لے جائے تو اس کو لغت عرب اور اس کے محاورات میں اسراء نہیں کہتے ۔
اللہ تعالیٰ نے حضرت لوط علیہ السلام سے فرما یا :
فَاَسْرِ بِاَہۡلِکَ
آپ رات میں اپنے اہل کو لے جائیں ۔
ایک اور مقام پر ارشاد فرما یا:
سُبْحٰنَ الَّذِیۡۤ اَسْرٰی بِعَبْدِہٖ
سبحان ہے وہ جو اپنے بندے کو رات کے ایک لمحہ میں لے گیا ۔
(المفردات :ج:2ص:305)
علامہ قرطبی مالکی لکھتے ہیں :
اگر یہ خواب کا واقعہ ہوتا تو اللہ تعالیٰ فرماتا بروح عبدہ اور بعبدہ نہ فرماتا ، نیز اللہ تعالیٰ نے فرما یا :
مَا زَاغَ الْبَصَرُ وَمَا طَغٰی
(آنکھ نہ کسی طرف پھری نہ حد سے بڑھی ( نجم : 17
یہ آیت بھی دلالت کرتی ہے معراج بیدار ی میں ہوئی ،نیز اگر یہ خواب کا واقعہ ہوتا تو اس میں اللہ تعالیٰ کی کوئی نشانی اور معجزہ نہ ہوتا اور آپ سے حضرت ام ہانی یہ نہ کہتیں کہ آپ لوگوں سے یہ واقعہ بیان نہ کریں وہ آپ کی تکذیب کریں گے ، اور نہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی تصدیق کرنے میں کوئی فضیلت ہوتی اور نہ قریش کے طعن و تشنیع اور تکذیب کی کوئی وجہ ہوتی ،حالانکہ جب آپ نے معراج کی خبر دی تو قریش نے آپ کی تکذیب کی اور کئی مسلمان مرتد ہوگئے ،اور اگر یہ خواب ہوتا تو اس کا انکا ر نہ کیا جا تا ، اور نیند میں جو واقعہ ہو اس کے لیے اسرٰی نہیں کہا جاتا
( اجامع لاحکام القرآن ،ج:10ص:209-208)
لفظ عبدہ کی تفسیر اور اسرار:
اللہ تعالیٰ نے سورہ بنی اسرائیل میں ارشاد فرمایا: “سبحا ن ہے وہ ذات جو اپنے عبد کو راتوں رات لے گیا “
سفر معراج کے کے موقعہ پر نبی ﷺ کو وصف عبدیت کے ساتھ ذکر کرنے میں یہ بھی بتلانا مقصود تھا کہ آپ کو معراج کی یہ عظیم فضیلت یہ بلند مرتبہ اور عظیم مقام آپ کی عبدیت کی وجہ سے حاصل ہوا ہے جو شخص اللہ تعالیٰ کے سامنے تواضع کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کو بلند کرتا ہے اور اس میں عیسائیوں کا رد بھی ہے کہ انہوں نے حضرت عیسی علیہ السلام کے عبد ہونے کو باعث عار سمجھا اور انہیں خدا اور خدا کا بیٹاکہا ۔اللہ تعالیٰ نے ظاہر فرمایا کہ عبدہ ہوناباعث عار نہیں ہے بلکہ انسان کو جو رفعتیں اور عظمتیں ملتی ہیں وہ اسی عبدہ ہونے سے ملتی ہیں ۔
اور عبدکا اطلاق روح مع الجسد پر کیا جاتا ہے فقط روح پر عرب کی لغت اور محاورات میں عبد کا اطلاق نہیں کیا جا تا سو سفر معراج کے ذکر میں اللہ تعالیٰ نے عبد کا ذکر کر کے یہ بیان فرمادیا کہ یہ معراج جسمانی تھی اس میں ان لوگوں کا رد بلیغ ہے جو صرف روحانی معراج کے قائل ہیں۔
آیت میں آپ کو عبدہ فرمایا ہے یعنی اس کا بندہ عبد تو دنیا میں ہزاروں ہیں لیکن کامل عبد وہ ہے جس کو مالک خود کہے یہ میرا بندہ ہے ۔سبحان اللہ
اور اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ ﷺ کا جہاں بھی ذکر فرمایا اپنی طرف اضافت کے کے فرمایا :
اَلْحَمْدُ لِلہِ الَّذِیۡۤ اَنۡزَلَ عَلٰی عَبْدِہِ الْکِتٰبَ وَلَمْ یَجْعَلۡ لَّہٗ عِوَجًا ؕ
“سب خوبیاں اللّٰہ کو جس نے اپنے بندے پر کتاب اتاری اور اس میں اصلاً کجی نہ رکھی (کھف:1)
اَلَیۡسَ اللہُ بِکَافٍ عَبْدَہٗ ؕ
“کیا اللّٰہ اپنے بندوں کو کافی نہیں؟(زمر :36)
امام فخر الدین رازی رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں :
میں نے اپنے والد اور شیخ عمر بن الحسین رحمہ اللہ سے سنا ،انہوں نے کہا میں نے شیخ سلیمان انصاری سے سنا کہ جب سیدنا محمد ﷺ بلند درجات اور عظیم مراتب پر پہنچے تو اللہ تعالیٰ نے ان کی طرف وحی کی اے محمد !تم کو کس وجہ سے یہ بلندی عطا کی گئی آپ نے جواب دیا ا ے میرے رب کیونکہ تو میرے عبد ہونے کو اپنی طرف منسوب فرماتا ہے اور مجھے اپنا عبادت گزار قرار دیتا ہے
تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی
سُبْحٰنَ الَّذِیۡۤ اَسْرٰی بِعَبْدِہٖ
(تفسیر کبیر ج:7ص:292)
اس موضوع پر علماء کرام نے بہت شرح اور بسط کے ساتھ تحریر فرمایا ہے لیکن یہاں ان تمام تفاصیل کو ذکر نا مشکل ہے لہذا علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کے اس شعر پرتحریر کو سمیٹتا ہوں کہ :
سبق ملا ہے یہ معراجِ مصطفی سے مجھے
کہ عالمِ بشریت کی زد میں ہے گردوں