حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالٰی عنہ
آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا نام عثمان بن عفان ،آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی کُنیت ”ابو عَمرو”اور لقب”ذوالنورین”(دو نور والے) ہے ، کیونکہ
حضور اکرم ﷺ نے اپنی دو صاحبزادیاں یکے بعد دِیگرے حضرت سیدنا عثمانِ غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے نکاح میں دِی تھیں۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ
نے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی تبلیغ کی بدولت آغازِ اسلام ہی میں قَبولِ اسلام کر لیا تھا،آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو “صَاحِبُ الْھِجْرَتَیْن”
(یعنی دو ہجرتوں والے) کہا جاتا ہے کیونکہ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پہلے حَبشہ اور پھر مدینۃ المنورہ کی طرف ہجرت فرمائی۔
آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ خُلَفائے راشِدین (یعنی حضرت سیدنا ابو بکرصدیق،حضرت سیدنا عمر فاروق ، حضرت سیدنا عثمانِ غنی ، حضرت سیدنا علی المرتضی رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین) میں تیسرے خلیفہ ہیں۔
امیرُ المؤمنین حضرت سیدنا عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شان بہت بلند وبالا ہے ،آپکا شمار عشرہ مبشرہ میں ہوتا ہے۔عشرہ مبشرہ وہ دس خوش نصیب صحابہ کرام ہیں جنہیں حضور اکرم ﷺ نے انکی حیات میں ہی جنتی ہونے کی بشارت عطا فرمادی تھی۔آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اپنے جان و مال سے اسلام اور مسلمانوں کی خوب خدمت کی اسکا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتاہے کہ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنی مبارَک زندگی میں حضور اکرم ﷺ سے دو مرتبہ جنت خریدی، ایک مرتبہ”بیررُومہ” یہودی سے خرید کر مسلمانوں کے پانی پینے کے لیے وَقف کر کے اور دُوسری بار” جَیْشِ عُسْرَت” کے موقع پر ۔ سُنَنِ تِرمِذی میں ہے:حضرتِ سیِّدُنا عبدُالرحمن بن خبا ب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مَروی ہے : کہ ميں بارگا ہِ نَبَوی علیہ الصَّلٰوۃ وَالسَّلام ميں حاضِر تھا اور حُضورِ اکرم ﷺ صَحابہ کِرام علیہم الرضوان کو ”جَیش عُسْرَت” (يعنی غَزوۂ تَبوک )کی تیاری کیلئے ترغیب ارشاد فرما رہے تھے ۔ حضرتِ سیِّدُنا عُثمان بن عَفّان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اُٹھ کر عرض کی :یا رسولَ اللہ ﷺ پالان اور دیگر متعلقہ سامان سَمیت سو۱۰۰ اُونٹ میرے ذِمّے ہیں۔ حضور اکرم ﷺ نے صَحابۂ کرام علیہم الرضوان سے پھرتَرغِیباً فرمایا۔تو حضرتِ سیِّدُنا عثمانِ غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ دوبارہ کھڑے ہوئے اور عرض کی:یا رسولَ اللہ ﷺ !میں تمام سامان سَمیت دو سو۲۰۰ اُونٹ حاضِر کرنے کی ذِمہ داری لیتا ہوں ۔ حضور اکرم ﷺ نے صَحابۂ کرام علیہم الرضوان سے پھرتَرغیباً ارشادفرمایا تو حضرتِ سیدنا عثمانِ غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کی : یا رسولَ اللہ ﷺ میں مع سامان تین سو۳۰۰ اُونٹ اپنے ذمّے قَبول کرتا ہوں۔
راوی فرماتے ہیں : ميں نے دیکھا کہ حضور اکرم ﷺ نے یہ سن کر مِنبرسے نیچے تشریف لاکر دومرتبہ فرمایا:” آج سے عثمان( رضی اللہ تعالیٰ عنہ)جوکچھ کرے اس پر مُواخذہ (یعنی پوچھ گچھ) نہیں۔”(سُنَنُ التِّرْمِذِیّ ج۵ ص۳۹۱ حدیث ۳۷۲۰ دارالفکر بیروت)
اسلام کیلئے آپکی خدمات جلیلہ میں سے ایک عظیم الشان خدمت قرآن مجید کا لغت قریش پر جمع کرنا ہے آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ کا یہ اقدام امت مسلمہ پر بہت بڑا احسان ہے۔
حضرت سیِّدُنا عبداللہ بن سلام رضی اللہ تعالیٰ عنہ فر ماتے ہیں کہ جن دِنوں باغیو ں نے حضرتِ سیِّدُنا عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مکا ن کا محا صَرہ کیاہوا تھا، اُن کے گھر میں پا نی کی ایک بوند تک نہیں جانے دی جا رہی تھی اور حضرتِ سیِّدُناعثما نِ غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ پیا س کی شِدّت سے تڑپتے رہتے تھے ۔ میں ملاقات کے لیے حا ضِر ہو ا تو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اُس دن روزہ دار تھے۔ مجھ کو دیکھ کر فر مایا: اے عبد اللہ بن سلام(رضی اللہ تعا لیٰ عنہ)! میں نے آج رات تاجدارِ دو جہان ﷺکو اس روشن دان میں دیکھا۔ حضور اکرم ﷺ نےانتہائی مشفقانہ لہجے میں ا رشاد فر مایا:” اے عثما ن(رضی اللہ تعالیٰ عنہ) !ان لوگوں نے پانی بند کر کے تمہیں پیاس سے بے قرار کر دیا ہے ؟” میں نے عر ض کی:جی ہا ں۔تو فو راً ہی آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ایک ڈَول میری طرف لٹکا دیا جو پانی سے بھرا ہوا تھا، میں اُس سے سیراب ہوا اور اب اس وقت بھی اُس پانی کی ٹھنڈک اپنے سینہ اور دونو ں کندھو ں کے درمیا ن محسو س کررہاہوں ۔ پھر حُضُو رِ اکرمﷺ نے مجھ سے فرمایا:” اے عثمان (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) ! اگر تمہا ری خو اہِش ہو تو ان لوگوں کے مقابلے میں تمہا ری امداد کروں اور اگر تم چاہو تو ہما رے پا س آکر روزہ افطارکر و” ۔ میں نے عرض کی: یا رسولَ اللہ ﷺ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے دربارِ پرُ انوار میں حا ضر ہو کر روزہ افطار کر نا مجھے زیا دہ عزیز ہے ۔ حضر ت سیِّدُنا عبداللہ بن سلام رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں اس کے بعد رخصت ہو کر چلا آیا اور اُسی روز باغیوں نے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو شہید کر دیا ۔
18 ذُوالحجۃ الحرام 35 سنِ ہجری کو جلیلُ القَدْرصَحابی امیر المئومنین سیدناعثمانِ غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نہایت مظلومیَّت کے ساتھ شہید کئے گئے ۔
اِنَّا لِلّہِ وَ اِنَّا اِلَیۡہِ رَاجِعُوۡنَ