Hazrat Imam Hussain R.A
His virtues in the light of hadith
Hazrat Imam Hussain R.A
ولادت مبارکہ
سیدا لشہداء حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ولادت 5 شعبان 4ھکو مدینہ منورہ میں ہوئی۔حضور پرنور سید عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے آپ کانام حسین اور شبیر رکھا اور آپ کی کنیت ابو عبداللہ اور لقب سبط رسول اللہ اور رَیْحَانَۃُ الرَّسُوْل ہے اور آپ کے برادرِ معظم کی طرح آپ کو بھی جنتی جوانوں کا سردار اور اپنافرزند فرمایا۔
( اسد الغابۃ، باب الحاء والحسین،۱۱۷۳۔الحسین بن علی،ص۲۵،۲۶ملتقطاً)
حضور اقدس نبی اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کو آپ کے ساتھ کمال رافت و محبت تھی۔ حدیث شریف میں ا ر شادہوا:
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ مَنْ اَحَبَّھُمَا فَقَدْ اَحَبَّنِیْ وَمَنْ اَبْغَضَھُمَا فَقَدْ اَبْغَضَنِیْ ۔
( المستدرک للحاکم،کتاب معرفۃ الصحابۃ،باب رکوب الحسن…الخ،الحدیث:۴۸۳۰، ج۴،ص۱۵۶)
”جس نے ان دونوں (حضرت امام حسن وامام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہما) سے محبت کی اس نے مجھ سے محبت کی اور جس نے ان سے عداوت کی اس نے مجھ سے عداوت کی۔ ”
حضور سید عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے ان دونوں فرزندوں کو اپنا پھول فرمایا۔ ھُمَا رَیْحَانَیْ مِنَ الدُّنْیَا وہ دنیا میں میرے دو پھول ہیں۔ (صحیح مسلم،کتاب الجنۃ وصفۃ نعیمہا واہلہا،باب فی دوام نعیم اھل الجنۃ…الخ،
الحدیث:۲۸۳۷،ص۱۵۲۱ماخوذاً)
حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم ان دونوں نونہالوں کو پھول کی طرح سونگھتے او رسینۂ مبارک سے لپٹا تے۔ (سنن الترمذی،کتاب المناقب،باب مناقب ابی محمد الحسن بن علی…الخ، الحدیث:۳۷۹۷،ج۵،ص۴۲۸ )
حضورپرنورسید عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی چچی حضرت ام الفضل بنت الحارث حضرت عباس بن عبد المطلب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی زوجہ ایک روزحضورانور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے حضور میں حاضر ہوئیں اور عرض کیا: یارسول اللہ! صلی اللہ علیک وسلم آج میں نے ایک پریشان خواب دیکھا، حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے دریافت فرمایا: کیا؟عرض کیا: وہ بہت ہی شدیدہے۔
ان کو اس خواب کے بیان کی جرآت نہ ہوتی تھی۔ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے مکرردریافت فرمایا تو عرض کیا کہ میں نے دیکھا کہ جسد اطہر کاایک ٹکڑا کاٹا گیا اور میری گود میں رکھا گیا۔ ارشادفرمایا :تم نے بہت اچھا خواب دیکھا، ان شاء اللہ تعالیٰ فاطمہ زہرا رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے بیٹا ہوگا او ر وہ تمہاری گود میں دیا جائے گا۔ ایساہی ہوا۔ حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ پیدا ہوئے اور حضرت ام الفضل کی گود میں دیئے گئے۔ ام الفضل فرماتی ہیں: میں نے ایک روز حضوراقدس صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوکر حضرت اما م حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی گود میں دیا،کیا دیکھتی ہوں کہ چشم مبارک سے آنسو ؤں کی لڑیاں جاری ہیں۔ میں نے عرض کیا: یانبی اللہ! صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم میرے ماں باپ حضو رپر قربان! یہ کیا حال ہے ؟ فرمایا:جبریل علیہ السلام میرے پاس آئے اور انہوں نے یہ خبر فرمائی کہ میری امت اس فرزند کو قتل کرے گی۔ میں نے کہا: کیااس کو؟ فرمایا:ہاں اور میرے پاس ا س کے مقتل کی سرخ مٹی بھی لائے۔( دلائل النبوۃ للبیہقی،جماع ابواب اخبار النبی…الخ،باب ما روی فی اخبارہ…الخ، ج۶،ص۴۶۸)
شہادت کی شہرت
حضرت امام عالی مقام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ولادت کے ساتھ ہی آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شہادت کی خبر مشہور ہوچکی، شیر خوار گی کے ایام میں حضور اقدس نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے ام الفضل کو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شہادت کی خبردی، خاتون جنت رضی اللہ تعالیٰ عنہانے اپنے اس نونہال کو زمین کربلا میں خون بہانے کے لیے اپنا خونِ جگر (دودھ) پلایا، علی مرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے دل بندِجگرپیوند کو خاک کربلا میں لَوٹنے اور دم توڑنے کے لئے سینہ سے لگا کر پالا، مصطفی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے بیابان میں سوکھا حلق کٹوانے اور را ہِ خداعزوجل میں مردانہ وارجان نذر کرنے کے لئے امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اپنی آغوشِ رحمت میں تربیت فرمایا، یہ آغوشِ کرامت و رحمتِ فردوسی چمنستانوں اور جنتی ایوانوں سے کہیں زیادہ بالامرتبت ہے، اس کے رتبہ کی کیا نہایت اور جو اس گود میں پرورش پائے اس کی عزت کاکیااندازہ۔ اس وقت کا تصور دل لرزا دیتا ہے جب کہ اس فر زند ِارجمندرضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ولادت کی مسرت کے ساتھ ساتھ شہادت کی خبر پہنچی ہوگی، سید عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی چشمۂ رحمت چشم نے اشکوں کے موتی برسا دئیے ہوں گے، اس خبر نے صحابہ کبار جاں نثار انِ اہلِ بیت رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے دل ہلا دئیے، اس درد کی لذت علی مرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دل سے پوچھئے، صدق وصفا کی امتحان گاہ میں سنتِ خلیل علیہ السلام ادا کررہے ہیں۔
حضرت خاتون جنت رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی خاک ِزیرِ قدمِ پاک پر قربان! جس کے دل کا ٹکڑا ناز نین لاڈلا سینہ سے لگاہوا ہے، محبت کی نگاہوں سے اس نور کے پتلے کو دیکھتی ہیں، وہ اپنے سرور آفریں تبسم سے دلربائی کرتاہے، ہُمَک ہُمَک کر محبت کے سمندر
میں تلاطم پیدا کرتا ہے، ماں کی گود میں کھیل کر شفقتِ مادری کے جوش کو اور زیادہ موجزن کرتاہے، میٹھی میٹھی نگاہوں اور پیاری پیاری باتوں سے دل لبھاتا ہے، عین ایسی حالت میں کربلا کا نقشہ آپ کے پیش نظر ہوتا ہے۔ جہاں یہ چہیتا ، نازوں کا پالا، بھوکا پیاسا، بیابان میں بے رحمی کے ساتھ شہید ہورہا ہے، نہ علی مرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ساتھ ہیں نہ حسن مجتبیٰ، عزیز واقارب برادر و فرزند قربان ہوچکے ہیں، تنہا یہ نازنین ہیں، تیروں کی بارش سے نوری جسم لہو لہان ہورہاہے، خیمہ والوں کی بے کسی اپنی آنکھوں سے دیکھتا ہے اور راہِ خداعزوجل میں مردانہ وار جان نثار کرتاہے۔کربلا کی زمین مصطفی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے پھول سے رنگین ہوتی ہے، وہ شمیم پاک جو حبیب ِخداعزوجل وصلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو پیاری تھی کوفہ کے جنگل کو عطر بیز کرتی ہے، خاتونِ جنت رضی اللہ تعالیٰ عنہاکی نظر کے سامنے یہ نقشہ پھر رہاہے اور فرزند سینہ سے لپٹ رہاہے۔حضرت ہاجرہ علیہا السلام اس منظر کو دیکھیں۔
دیکھنا تو یہ ہے کہ اس فرزند ِارجمند کے جَدِّ کریم، حبیب ِخدا عزوجل وصلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ہیں، حضرت حق تبارک و تعالیٰ ان کا رضا جو ہے :
وَ لَسَوْفَ یُعْطِیۡکَ رَبُّکَ فَتَرْضٰی ؕ﴿۵﴾
ترجمہ کنز الایمان: اور بیشک قریب ہے کہ تمہارا رب تمہیں اتنا دے گا کہ تم راضی ہو جاؤ گے۔
(پ۳۰، الضحیٰ:۵)
بحروبر میں ان کا حکم نافذ ہے، شجر وحجر سلام عرض کرتے ہیں اور مطیعِ فرمان ہیں، چاند اشاروں پر چلا کرتاہے، ڈوبا ہوا سورج پلٹ آتا ہے،بدر میں ملائکہ لشکری بن کر حاضر خدمت ہوتے ہیں، کونین کے ذرہ ذرہ پر بحکم الٰہی عزوجل حکومت ہے، اولین و آخرین سب کی عُقْدَہ کُشائی اشارۂ چشم پر موقوف و منحصر ہے، ان کے غلاموں کے صدقہ میں خَلْق کے کام بنتے ہیں، مددیں ہوتی ہیں، روزی ملتی ہے.باوجود ا س کے اس فرزند ارجمند کی خبرِ شہادت پاکر چشمِ مبارک سے اشک تو جاری ہو جاتے ہیں مگر مصطفی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم دعا کے لئے ہاتھ نہیں اٹھاتے، بارگاہِ الٰہی عزوجل میں امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے امن وسلامت اور اس حادثۂ ہائلہ سے محفوظ رہنے اور دشمنوں کے بربا د ہونے کی دعا نہیں فرماتے، نہ علی مرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ عرض کرتے ہیں کہ یارسول اللہ! عزوجل و صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم اس خبر نے تودل و جگر پارہ پار ہ کردئیے، آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے قربان! بارگاہِ حق میں اپنے اس فرزند کے لئے دعا فرمائیے۔ نہ خاتون جنت رضی اللہ تعالیٰ عنہا التجا کرتی ہیں کہ اے سلطان دارین! آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے فیض سے عالَم فیض یاب ہے اور آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی دعا مستجاب۔ میرے اس لاڈلے کے لئے دعا فرمادیجئے، نہ اہل بیت نہ ازواجِِ مطہرات نہ صحابہ کرام علیہم الرضوان۔سب خبر شہادت سنتے ہیں، شہر ہ عام ہوجاتا ہے مگر با رگاہِ رسالت صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم میں کسی طرف سے دعا کی درخواست پیش نہیں ہوتی۔
بات یہ ہے کہ مقامِ امتحان میں ثابت قدمی درکارہے، یہ محل عذروتا مل نہیں، ایسے موقع پر جان سے دَرِیْغ جانباز مردوں کا شیوہ نہیں، اخلاص سے جاں نثاری عین تمنا ہے۔ دعائیں کی گئیں مگر یہ کہ یہ فرزند مقامِ صفاو وفا میں صادق ثابت ہو۔ تو فیقِ الٰہی عزوجل مُساعِدْ رہے، مصائب کا ہجوم اور آلام کا اَنْبوہ اس کے قدم کو پیچھے نہ ہٹا سکے۔
احادیث میں اس شہادت کی بہت خبریں وارد ہیں۔ابن سعد و طبرانی نےحضرت ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت کی کہ حضور انور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: مجھے جبریل نے خبر دی کہ میرے بعد میر ا فرزند حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ زمینِ طَفّ میں قتل کیا جائے گا اور جبریل علیہ السلام میرے پاس یہ مٹی لائے، انہوں نے عرض کیا کہ یہ (حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ) کی خوابگاہ (مَقْتَل) کی خاک ہے۔ طف قریب کوفہ اس مقام کا نام ہے جس کو کربلا کہتے ہیں۔
( المعجم الکبیر للطبرانی، الحسین بن علی…الخ، الحدیث:۲۸۱۴،ج۳،ص۱۰۷)
امام احمد نے روایت کی کہ حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ میری دولت سرائے اقدس میں وہ فرشتہ آیا جو اس سے قبل کبھی حاضر نہواتھا، اس نے عرض کیا کہ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے فرزند حسین (رضی اللہ تعالیٰ عنہ ) قتل کئے جائیں گے اور اگر آپ چاہیں تو میں آپ کو اس زمین کی مٹی ملاحظہ کراؤں جہاں وہ شہید ہوں گے۔ پھر اس نے تھوڑی سی سرخ مٹی پیش کی۔ (المسند للامام احمد بن حنبل، حدیث ام سلمۃ…الخ،الحدیث:۲۶۵۸۶،ج۱۰،ص۱۸۰)
اس قسم کی حدیثیں بکثرت وارد ہیں، کسی میں بارش کے فرشتہ کے خبر دینے کا تذکرہ ہے،کسی میں ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو خاک ِکربلا تَفْوِیْض کرنے اور اس خاک کے خون ہوجانے کو علامتِ شہادتِ اما م رضی اللہ تعالیٰ عنہ قراردینے کا تذکرہ ہے۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کو اس شہادت کی بار بار اطلاع دی گئی اور حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے بھی بارہا اس کا تذکرہ فرمایا اور یہ شہادت حضرت امام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے عہد ِطُفولِیَّت سے خوب مشہور ہوچکی اور سب کو معلوم ہوگیا کہ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کامَشْہَد کربلا ہے۔( الصواعق المحرقۃ، الباب الحادی عشر، الفصل الثالث فی الاحادیث الواردۃ فی بعض اہل البیت…الخ، ص۱۹۳)
حاکم نے ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی کہ ہم کو کوئی شک باقی نہ رہا اور اہلِ بیت علیہم الرضوان باتفاق جانتے تھے کہ امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کربلا میں شہید ہونگے۔( المستدرک للحاکم،کتاب معرفۃ الصحابۃ، باب استشہد الحسین…الخ، الحدیث:۴۸۷۹، ج۴، ص۱۷۵)
ابو نعیم نے نجی حضرمی سے روایت کی کہ وہ سفرِصِفِّیْن میں حضرت مولیٰ علی مرتضیٰ کرم اللہ تعالیٰ وجہہ الکریم کے ہمراہ تھے، جب نِیْنَویٰ کے قریب پہنچے جہاں حضرت یونس علیہ السلام کا مزار ِاقدس ہے تو حضرت علی مرتضیٰ کرم اللہ تعالیٰ وجہہ الکریم نے نداکی کہ اے ابو عبداللہ! فُرات کے کنارے ٹھہرو۔ میں نے عرض کیا: کس لئے؟ فرمایا : نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ جبریل علیہ السلام نے مجھے خبردی ہے کہ امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرات کے کنارے شہید کیے جائیں گے او ر مجھے وہاں کی ایک مشت مٹی دکھائی۔( المسند للامام احمد بن حنبل، مسند علی بن ابی طالب، الحدیث:۶۴۸،ج۱،ص۱۸۴3)
ان خبروں سے معلوم ہوتا ہے کہ علی مرتضیٰ اور صحابہ کبارعلیہم الرضوان زمین کربلا کے چپہ چپہ کو پہچانتے تھے، انہیں معلوم تھا کہاں اونٹ با ندھے جائیں گے، کہاں سامان رکھا جائے گا، کہا ں خون بہایا جا ئے گا۔ یہ شہادت کاکمال ہے ایسا اعلا ن عام ہو، اپنے پرائے سب جان جائیں،مقام بتادیا گیاہو، وہاں کی خاک شیشیوں میں رکھ لی گئی ہو، اس کے خون ہو جانے کا انتظار ہو او ر شوقِ شہادت میں کمی نہ آئے، جذبۂ جاں نثاری روز اَفْزُوں ہوتا رہے، تمام چاہنے والے پہلے سے باخبر ہوں، ہر دل اس زخم کا مزہ لے اور صبر و اِسْتِقْلال کے ساتھ جان عطا کرنے والے کی راہ میں جان قربا ن کی جائے۔ یہ مردانِ کامل اور فرزند انِ مصطفی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کا حصہ اور انھیں کاحوصلہ ہے۔