ولادت با سعادت
حضوراقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی ولادت باسعادت واقعہ ”اصحاب فیل”سے پچپن دن کے بعد 12ربیع الاول مطابق 20 ا پر یل 571 کوہوئی ۔ اہل مکہ کا بھی اسی پر عملدرآمد ہے کہ وہ لوگ بارہویں ربیع الاول ہی کو کاشانۂ نبوت کی زیارت کے لئے جاتے ہیں اور وہاں میلاد شریف کی محفلیں منعقد کرتے ہیں۔
(مدارج النبوۃ ج2 ص14)
تاریخ عالم میں یہ وہ نرالااور عظمت والا دن ہے کہ اسی روز عالم ہستی کے ایجاد کا باعث، گردش لیل و نہار کا مطلوب، خلق آدم کارمز، کشتی نوح کی حفاظت کا راز، بانی کعبہ کی دعا،ابن مریم کی بشارت کا ظہور ہوا۔کائناتِ وجود کے الجھے ہوئے گیسوؤں کو سنوارنے والا، تمام جہان کے بگڑے نظاموں کو سدھارنے والا یعنی سند الاصفیاء، اشرف الانبیاء، احمد مجتبیٰ،محمد مصطفی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم عالمِ وجود میں رونق افروز ہوئے اور پاکیزہ بدن، ناف بریدہ، ختنہ کئے ہوئے خوشبو میں بسے ہوئے بحالت سجدہ، مکہ مکرمہ کی مقدس سرزمین میں اپنے والد ماجد کے مکان کے اندر پیدا ہوئے باپ کہاں تھے جو بلائے جاتے اور اپنے نونہال کو دیکھ کر نہال ہوتے۔ وہ تو پہلے ہی وفات پا چکے تھے۔ دادا بلائے گئے جو اس وقت طوافِ کعبہ میں مشغول تھے۔ یہ خوشخبری سن کر
دادا ”عبدالمطلب” خوش خوش حرم کعبہ سے اپنے گھر آئے اور والہانہ جوشِ محبت میں اپنے پوتے کو کلیجے سے لگا لیا۔ پھر کعبہ میں لے جا کر خیروبرکت کی دعا مانگی اور ”محمد” نام رکھا۔
( المواھب اللدنیۃ مع شرح الزرقانی، ولادتہ…الخ،ج1،ص232)
آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کے چچا ابو لہب کی لونڈی”ثویبہ” خوشی میں دوڑتی ہوئی گئی اور ”ابو لہب” کو بھتیجا پیدا ہونے کی خوشخبری دی تو اس نے اس خوشی میں شہادت کی انگلی کے اشارہ سے ”ثویبہ” کو آزاد کر دیا جس کا ثمرہ ابو لہب کو یہ ملاکہ اس کی موت کے بعد اس کے گھر والوں نے اس کو خواب میں دیکھااور حال پوچھا،تو اس نے اپنی انگلی اٹھا کر یہ کہا کہ تم لوگوں سے جدا ہونے کے بعد مجھے کچھ(کھانے پینے) کو نہیں ملا بجز اس کے کہ ”ثویبہ” کو آزاد کرنے کے سبب سے اس انگلی کے ذریعہ کچھ پانی پلا دیا جاتاہوں۔
(بخاری ج2 باب و امہاتکم التی ارضعنکم)
اس موقع پر حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ نے ایک بہت ہی فکر انگیز اور بصیرت افروز بات تحریر فرمائی ہے جو اہل محبت کے لئے نہایت ہی لذت بخش ہے،وہ لکھتے ہیں کہ
اس جگہ میلاد کرنے والوں کے لئے ایک سند ہے کہ یہ آنحضرت صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی شب ولادت میں خوشی مناتے ہیں اور اپنا مال خرچ کرتے ہیں ۔مطلب یہ ہے کہ جب ابو لہب کو جو کافر تھااور اس کی مذمت میں قرآن نازل ہوا، آنحضرت صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی ولادت پر خوشی منانے،اور باندی کا دودھ خرچ کرنے پرجزا دی گئی تو اس مسلمان کا کیا حال ہو گا جو آنحضرت صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی محبت میں سرشار ہو کر خوشی مناتا ہے اور اپنا مال خرچ کرتا ہے۔
(مدارج النبوۃ ج2 ص19)
مولد النبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم
جس مقدس مکان میں حضوراقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی ولادت ہوئی،تاریخ اسلام میں اس مقام کا نام ”مولد النبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ” (نبی کی پیدائش کی جگہ) ہے ،یہ بہت ہی متبرک مقام ہے۔ سلاطینِ اسلام نے اس مبارک یادگار پر بہت ہی شاندار عمارت بنا دی تھی،جہاں اہل حرمین شریفین اور تمام دنیا سے آنے والے مسلمان دن رات محفل میلاد شریف منعقد کرتے اور صلوٰۃ و سلام پڑھتے رہتے تھے۔ چنانچہ حضرت شاہ ولی اللہ صاحب محدث دہلوی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے اپنی کتاب ”فیوض الحرمین” میں تحریر فرمایا ہے کہ میں ایک مرتبہ اس محفل میلاد شریف میں حاضر ہوا،جو مکہ مکرمہ میں بارہویں ربیع الاول کو ”مولد النبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ” میں منعقد ہوئی تھی جس وقت ولادت کا ذکر پڑھا جا رہا تھا تو میں نے دیکھا کہ یکبارگی اس مجلس سے کچھ انوار بلند ہوئے، میں نے ان انوار پر غور کیا تو معلوم ہوا کہ وہ رحمتِ الٰہی اور ان فرشتوں کے انوار تھے جو ایسی محفلوں میں حاضر ہوا کرتے ہیں۔
(فیوض الحرمین)
ماخوذ:سیرت مصطفٰی ﷺ
حضرت علامہ عبد المصطفٰی الازہری
پیشکش:مفتی محمد خرم اقبال رحمانی