سرور عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اس عالم رنگ و بو میں آمد، رحمت و برکت کی برکھا ہے، جس سے زمینِ مردہ میں جان آگئی۔ ظلم و جبر کے سر چشمے خشک ہوگئے۔ عدل و مساوات کے نام سے نا آشنا کان، مہر و محبت کے سُریلے نغموں سے سرشار ہوئے۔ جہالت کے اندھیروں میں بھٹکنے والوں کو نشان منزل ہی نہیں، منزل مل گئی۔ ظلم و استبداد کے خونی پنجوں میں سسکتی زندگی کو پھر سے توانائی ملی۔ ظلم و جہالت کے زنجیروں میں جکڑی انسانیت کو رہائی ملی۔ جورو جبر کی زنجیریں ایک ایک کر کے ٹوٹنے لگیں۔ غلامی کے طوق و سلاسل ریزہ ریزہ ہوگئے۔ بادِ سموم سے زندگی کے مرجھائے چہرے باد صبا کے تازہ جھونکوں سے کھلنے لگے۔ یتیموں، بیوائوں، غلاموں، مظلوموں کے بہتے آنسو تھم گئے۔ مٹی سے سونا بنانے والے، دست دولت آفریں، کی عزت بحال ہوگئی۔ غلاموں اور دبے گِروں کو سریر سلطنت پر بٹھایا گیا۔ دھتکارے پھٹکارتے ہوئوں کو، قیصر و کسریٰ کا وارث بنادیا۔ جہالت کے پتلوں کو کائنات کا مُعلّم بنادیا۔ اپنی اولاد پر ترس نہ کھانے والوں کو یتیموں کا والی بنادیا۔ بے ڈھب زندگی بسر کرنے والوں کو بے مثال منظم ہی نہیں منتظم بنادیا۔ اپنی بچیوں کو زندہ درگور کرنے والوں، جاہلوں، سنگدلوں بھیڑیوں کو، نہ صرف اپنی بلکہ یتیم و بے سہارا بچیوں کا خادم و خیر خواہ بنادیا۔ نفرت و حقارت کی نظر سے دیکھی جانے والی وہ بچی جس کی پیدائش پر رنگ فق اور چہرے سیاہ پڑ جاتے، ماں باپ اور اعزاء و اقارب پر غم کی گھٹا چھا جاتی تھی۔ باپ سوچتا تھا کہ بچی کو زندہ رکھوں یا عزت کو بچائوں۔ دونوں جمع نہیں ہوسکتیں، بیٹی بھی ہو اور عزت بھی ہو۔ جی ہاں اسی حقیر و دھتکاری بچی کو وہ شرف بخشا جو کسی بیٹے کو نہ ملے
میلادِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اہم مقصد
ماہ مقدس ربیع الاول شریف ہر سال آتا ہے اور اپنے جلو میں جذباتِ محبت کا ایک عالم لاتا ہے۔ دنیا بھر کے مسلمان اس ماہ مبارک میں خصوصی طور پر اپنے آقا و مولا، محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حضور والانہ طور پر اپنے اپنے انداز سے نذرانہ عقیدت پیش کرتے ہیں۔ آج کے دور میں اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ لوگوں کو رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت طیبہ اور فضائل و کمالات موثر انداز میں بتائے جائیں۔ لازم ہے کہ مسلمانوں کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فضائل وکمالات از بر کروائے جائیں تاکہ علم بڑھے، روشنی پھیلے اور دلوں میں عشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شمع فروزاں ہو یہی ہماری تمام پریشانیوں، بے عملیوں اور بدعملیوں کا علاج بھی ہے۔
محفل میلاد ہو یا مجلس ذکر، ان کا ایک ہی مقصد ہے کہ ہم نے اپنی نادانیوں سے جو رشتہ الفت کمزور کرلیا ہے اسے پھر سے مضبوط کیا جائے۔
قابل صد تکریم ہے ہر وہ فرزندِ اسلام جو اپنے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت میں سرشار ہے۔ ذکر سرکار کی محفلیں سجاتا اور عظمت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چراغ جلاتا ہے۔
’’میری اس نعمت کا ذکر کرو جو میں نے تم پر کی‘‘۔البقره 47
ذاتِ مصطفوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ۔۔۔ نعمت الہٰی
جشن عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ایک بڑا مقصد یہی ہوتا ہے کہ اللہ کی سب سے بڑی نعمت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ذکر پاک کیا جائے۔ آپ کے فضائل و کمالات، آپ کی دنیا میں تشریف آوری، آپ کی نورانی صورت اور آپ کی حسین سیرت کا بیان ہو تاکہ ایمان تازہ ہو اور جذبات عشق و محبت پرورش پائیں جو ہماری کامیابی کے ضامن ہیں۔ رب کریم نے بعثت محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مسلمانوں کیلئے احسان عظیم قرار دیا۔
’’بے شک اللہ نے مسلمانوں پر بڑا احسان فرمایا کہ ان میں انہی میں سے (عظمت والا) رسول ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) بھیجا جو ان پر اس کی آیتیں پڑھتا اور انہیں پاک کرتا ہے اور انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے اگرچہ وہ لوگ اس سے پہلے کھلی گمراہی میں تھے‘‘۔ آل عمران : 164
اس جگہ اللہ تعالیٰ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت کو اپنا بڑا احسان فرمایا۔ پس لازم ہے کہ اس احسان عظیم کا ہر وقت ذکر و اعتراف کیا جائے، اس پر شکر کیا جائے اور اس کی حقیقی قدر کی جائے اور اس کے ملنے پر خوشی کا اظہار کیا جائے۔
چونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، اللہ تعالیٰ کی سب سے بڑی نعمت ہیں لہذا آپ کے حسن و کمال کا چرچا بہت ہی زیادہ کرنے کا حکم دیا گیا ہے. جس آقائے کائنات کی تعریف و توصیف ہر آسمانی کتاب میں موجود ہے۔ جن کا ذکر ہر نبی نے اپنی امت کے سامنے کیا۔ جن کا ذکر اللہ نے ہر ذکر سے بلند تر کردیا۔ جن کا نام اپنے نام کے ساتھ ساتھ رکھا۔ جن کی اطاعت اپنی اطاعت، جن کی محبت اپنی محبت اور جن سے دشمنی اپنی دشمنی قرار دی۔ جس کی آمد پر خوشیاں منانے کا حکم دیا اور اس خوشی کو ہر چیز سے بہتر قرار دیا۔ کیا منشاء قدرت یہی تھا کہ ان کا ذکر نہ ہو؟ یقینا ایسا نہیں ان کی آمد پر خوشی کا اظہار اس نے تمام آسمانی کتابوں میں کردیا ہے۔
لوگوں کے سامنے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا میلاد، سیرت طیبہ اور تعلیمات مقدسہ کو بیان کریں تاکہ سچی عقیدت ان کے دلوں میں پیدا ہو اور وہ اپنی زندگی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مقدس زندگی کے رنگ میں ڈھال سکیں۔ دین کا بول بالا ہو، سچے فضائل و کمالات اتنی کثرت سے بیان کریں کہ غلط و موضوع روایات ختم ہوجائیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت پر اتنا زور دیں کہ نوجوانوں کے دلوں سے ہر جھوٹی محبت ختم ہوجائے۔ صدقہ و خیرات، قرآن خوانی و نعت خوانی اور سیرت و صورت محبوب کا ہر جگہ اتنا زور و شور سے تذکرہ کریں کہ شیطانی آوازیں پست ہوکر ختم ہوجائیں۔ گھروں کو، دکانوں کو، بازاروں اور کارخانوں کو، اداروں و راستوں کو اتنا سجائیں کہ ہر ایک پر عظمت رسول واضح ہو۔ کھانے کھلائیں، مشروب پلائیں، ناداروں کو کپڑے پہنائیں، نادار طلبہ کو کتب اور فیس دیں اور اس سب کا ثواب صاحب میلاد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں نذر کریں۔ یاد رکھیں اگر محبوب کی آمد پر خوشی منانا گوارا نہیں تو کوئی خوشی نہ منائیں اگر یہ جشن منع ہے تو ہر جشن حرام ہے۔ اگر آمد محبوب پر اظہار خوشی نہیں کرتے تو کسی تقریب پر خوشی زیب نہیں دیتی۔
عید میلاد النبی تمہارے لئے سب سے بڑی مذہبی و سیاسی تقریب ہے۔ خوشیاں منانے کا یہ سب سے بڑا موقع ہے۔ چراغاں کرنے، جھنڈیاں لگانے اور تقریبات منعقد کرنے کا اس سے بڑا اور مقدس کوئی دوسرا موقع نہیں وبذالک فليفرحوا خوشیاں منانی ہیں تو بس اسی پر منائو۔ جشن منانے ہیں تو اس پر مناؤ هو خير مما يجمعون. (یونس : 58) یہ اظہار مسرت ہر اس چیز سے بہتر ہے جسے لوگ جمع کرتے ہیں۔ خواہ نماز، روزہ، خواہ دنیا کا مال و اسباب ہو، خواہ دیگر نیکیاں ہوں۔ اس نیکی سے بڑھ کر کوئی نیکی نہیں کہ ہر نیکی اس کے وسیلہ سے ملی ہے۔ اسی نیکی کی برکت سے کافر تک فیضیاب ہوئے۔ مسلمان تو ان کے اپنے ہیں، وہ کیسے محروم رہ سکتے ہیں۔